شہر یار (اسم اعظم کی پانچ غزلیں)

(1)

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس وبے جان سا کیوں ہے

تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو!
تاحدِّنظر ایک بیابان سا کیوں ہے

ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زود پشیمان، پشیمان سا کیوں ہے

کیا کوئی نئی بات نظرآتی ہے ہم میں
آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے

(2)

مشعل درد پھر اک بار جلا لی جائے
جشن ہو جائے ذرا دھوم مچا لی جائے

خون میں جوش نہیں آیا زمانہ گزرا
دوستوآئوکوئی بات نکالی جائے

جان بھی میری چلی جائے تو کچھ بات نہیں
وار تیرا نہ مگرایک بھی خالی جائے

جو بھی ملنا ہے ترے در ہی سے ملنا ہے ہائے
در ترا چھوڑ کے کیسے یہ سوالی جائے

وصل کے صبح کے ہونے میں ہے کچھ دیر ابھی
داستاں ہجر کی کچھ اور بڑھا لی جائے

(3)

حوصلہ دل کا نکل جانے دے
مجھ کو جلنے دے پگھل جانے دے

آنچ پھولوں پہ نہ آنے دے مگر
خس و خاشاک کو جل جانے دے

مدّتوں بعد صبا آئی ہے
موسمِ دل کو بدل جانے دے

چھا رہی ہیں جو مری آنکھوں پر
ان گھٹائوں کو مچل جانے دے

تذکرۂ اس کا ابھی رہنے دے
اور کچھ رات کو ڈھل جانے دے

(4)

دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی
اماں کی کوئی جگہ زیر آسماں نہ رہی

رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں
مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی

لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم
کوئی کرن بھی تو ا س دل میں ضوفشاں نہ رہی

میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا
یہ زندگی مری آنکھوں سے کیوں نہاں نہ رہی

زباں ملی بھی تو کس وقت بے زبانوں کو
سنانے کے لیے جب کوئی داستاں نہ رہی

(5)

دامِ الفت سے چھوٹتی ہی نہیں
زندگی تجھ کو بھولتی ہی نہیں

کتنے طوفاں آٹھائے آنکھوں نے
نائو یادوں کی ڈوبتی ہی نہیں

تجھ سے ملنے کی تجھ کو پانے کی
کوئی تدبیر سوجھتی ہی نہیں

ایک منزل پہ رُک گئی ہے حیات
یہ زمیں جیسے گھومتی ہی نہیں

لوگ سر پھوڑ کر بھی دیکھ چکے
غم کی دیوار ٹوٹتی ہی نہیں

 

 

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!