کلیات حسرت: ردیف’ی‘ کی غزلیں

 

(1)

نگاہِ یار جسے آشانائے راز کرے
وہ اپنی خوبیٔ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

دِلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شاملِ اربابِ امتیاز کرے

غمِ جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے دردِ محبت سے ساز باز کرے

امید وار ہیںہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

ترے کرم کا سزا وار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

(2)

لایا ہے دل پر کتنی خرابی!
اے یار تیرا حسن شرابی

پیرہن اس کا ہے سادہ رنگیں
یا عکس مے سے شیشہ گلابی

عشرت کی شب کا وہ دور آخری
نورِ سحر کی وہ لاجوابی

پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں
کیفیت ان کی وہ نیم خوابی

بزمِ طرب ہے وہ بزم ، کیوں ہو
ہم غمزدوں کو واں باریابی

اس نازنیں نے باوصف ِ عصمت
کی وصل کی شب وہ بے حجابی

شوق اپنی بھولا گستاخ دستی
دل ساری شوخی حاضر جوابی

وہ روئے زیبا ہے جانِ خوبی
ہیں وصف جس کے سارے کتابی

اس قیدِ غم پر قربان حسرتؔ
عالی جنابی گردوں رکابی

(3)

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

دل سے ارباب ِوفا کا ہے بھلانا مشکل!
ہم نے یہ ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے

تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں
شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے

سخت بے درد ہے تاثیر محبت کی نہیں
بسترِ ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے

آہ وہ یاد کہ اس یادکو ہو کر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے

کیا تامل ہے مرے قتل میں اے بازوِ یار
ایک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے

حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھو، کہ اُسے
یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے

تیری نسبت سے ستمگر ترے مایوسوں نے
داغِ حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے

کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو
نام اس کا دلِ مضطر نے دوا رکھا ہے

نگہ یار سے پیکانِ قضا کا مشتاق!
دلِ مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے

اس کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرتؔ
تونے ربط ان سے جو اس درجہ بڑھا رکھا ہے

(4)

دل کو تری دُزدیدہ نظر لے کے گئی ہے
اب یہ نہیں معلوم کدھر لے کے گئی ہے

اس بزم سے آزردہ نہ آئے گی محبت
آئینِ وفا مدِّ نظر لے کے گئی ہے

جب لے کے گئی ہے ہمیں تا کوئے ملامت
مجبوریٔ دِل خاک بسر لے کے گئی ہے

پہلے ہی سے مایوس نہ کیوں ہوں کہ دعا کو
قسمت مری محرومِ اثر لے کے گئی ہے

اللہ رے کا فر ترے اس حسن کی ہستی
جو زلف تری تا بہ کمر لے کے گئی ہے

مغموم نہ ہو خاطرِ حسرتؔ کہ تلک تک
پیغامِ وفا بادِ سحر لے کے گئی ہے

(5)

نہ ہو اس کی خطا پوشی پہ کیوں نازِ گنہگاری!
نشانِ شانِ رحمت بن گیا داغِ سیہ کاری

ستم تم چھوڑدو میں شکوہ سنجہائے ناچاری!
کہ فرض عین ہے کیشِ محبت میں روا داری

وفا سے دشمنی رکھ کر مرے دل کی طلبگاری
بہت مشکل ہے اس جنس گرامی کی خرید داری

ہوئیں ناکامیاں بدنامیاں رسوائیان کیا کیا
نہ چھوٹی ہم سے لیکن کوئے جاناں کی ہوا داری

وہ دن اب یاد آتے ہیں کہ آغازِ محبت میں
نہ چالاکی تجھے اے شوخ آتی تھی نہ عیّاری

نہیں غم جَیب دامن کا مگر ہاں فکر ہے اتنی
نہ اٹھے گا مرے دست جنوں سے رنج بیکاری

نہ چھوڑا مرتے دم تک ساتھ بیمارِ محبت کا
قسم کھانے کے قابل ہے ترے غم کی وفا داری

نہ ان کو رحم آتا ہے نہ مجھ کو صبر ہے ممکن
کہیں آسان ہو یا ربّ محبت کی یہ دشواری

نہیں کھلتی مری نسبت تری اے حیلہ جو مرضی
کہ ہے اقرارِ دلجوئی نہ انکارِ ستم گاری

نہ کر اتنا ستم ہم در مندوں پر کہ دنیا سے
مباد ایک قلم اٹھ جائے تہذیب وفا داری

رواں ہے قافلہ سوئے عدم ارباب محنت کا
گیا پہلے ہی دل اب جانِ مخزوں کی ہے تیاری

خوشی سے ختم کر لے سختیاں قید فرہنگ اپنی
کہ ہم آزاد ہیں بیگانۂ رنجِ دل آزاری

نہ دیکھے دل اور دل عشّاق پر بھی نظر رکھے
قیامت ہے نگاہِ یار کا حسنِ خبر داری

یہی عالم رہا گر اس کے حُسن سحر پر ور کا
تو باقی رہ چکی دنیا میں راہ و رسمِ ہشیاری

وہ جرم آرزو پر جس قدر چاہیں سزا دے لیں
مجھے خود خواہش تعزیر ہے ملزم ہوں اقراری

چلابرسات کا موسم نہ چھوٹے قید غم سے ہم
بڑی بے لُطفیوں میں ا ب کے گزارا وقت میخواری

نسیم دہلوی کو وجد ہے فردوس میں حسرتؔ
جزاک اللہ تیری شاعری ہے یا فسوں کاری

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!