نشاط روح (اصغر گونڈوی): ابتدائی غزلیں

 

نشاط روح کی ابتدائی گیارہ غزلیں: مرتب احسان احمد1925

(1)

ادنیٰ سا یہ حیرت کا کرشمہ نظر آیا
جو تھا پس پردہ سرِ پردہ نظر آیا

پھر میں نظر آیا نہ تماشا نظر آیا
جب تو نظر آیا مجھے تنہا نظر آیا

اللہ رے دیوانگیِ شوق کا عالم
اک رقص میں ہرذرہ صحرا نظر آیا

اٹھے عجب انداز سے وہ جوش غضب میں
چڑھتا ہوا اِک حسن کا دریا نظر آیا

کس درجہ ترا حُسن بھی آشوبِ جہاں ہے
جس ذرّے کو دیکھا تڑپتا نظر آیا

اب خود ترا جلوہ جو دکھاوے وہ دکھاوے
یہ دیدۂ بینا تو تماشا نظر آیا

تھا لطفِ جنوں دیدۂ خوننابہ فشاں سے
پھولوں سے بھرا دامن صحرا نظر آیا

(2)

دلِ نثار مصطفیٰ جاں پائمال مصطفیٰ
یہ اویس مصطفیٰ ہے وہ بلالِ مصطفیٰ

دونوں عالم تھے مرے حرفِ دعا میں غرق محو
میں خدا سے کر رہا تھا جب سوالِ مصطفیٰ

سب سمجھتے ہیں اِسے شمعِ شبستانِ حرا
نور ہے کونین کا لیکن جمالِ مصطفیٰ

عالمِ ناسوت میں اور عالم لاہوت میں
کوندتی ہے ہر طرف برقِ جمالِ مصطفیٰ

عظمت تنزیہہ دیکھی شوکت تشبیہہ بھی
ایک حال مصطفیٰ ہے ایک قال مصطفیٰ

دیکھئے کیا حال کر ڈالے شب یلدائے غم
ہاں نظر آئے ذرا صبح جمالِ مصطفیٰ

ذرّہ ذرّہ عالم ہستی کا روشن ہو گیا
اللہ اللہ شوکت و شانِ جمالِ مصطفیٰ

(3)

خوب دن تھے ابتدائے عشق کے
اب دماغِ نالہ و شیون کہاں

اس رخِ رنگیں سے آنکھیں سینکئے
ڈھونڈھیے اب آتش ایمن کہاں

سارے عالم میں کیا تجھ کو تلاش
تو ہی بتلا ہے رگِ گردن کہاں

خوب تھا صحرا پر اے ذوقِ جنوں
پھاڑنے کو نت نئے دامن کہاں

شوق سے ہے ہر رگِ جاں جست میں
لے اڑے گی بوئے پیراہن کہاں

(4)

حیراں ہے زاہد مری مستانہ ادا سے
سو راہ طریقت کھلیں اک لغزشِ پا سے

اک صورت افتاد کی نقش فنا ہوں
اب راہ سے مطلب نہ مجھے راہ نما سے

میخانہ اک روح مجھے کھینچ کے دے دی
کیا کر دیا ساقی نِگہ ہوش ربا سے

(5)

فتنہ سامانیوں کی خو نہ کرے
مختصر یہ کہ آرزو نہ کرے

پہلے ہستی کی ہے تلاش ضرور
پھر جو غم ہو تو جستجو نہ کرے

ماورائے سخن بھی ہے کچھ بات
بات یہ ہے کہ گفتگو نہ کرے

(6)

وہ اک دل دماغ کی شادابی نشاط
گرنا چمک کے اف تری برق نگاہ کا

وہ لذت الم کا جو خو گر سمجھ گئے
اب ظلم مجھ پہ ہے کہ ستم گاہ گاہ کا

شیشے میں موج مئے کو یہ کیا دیکھتی ہیں آپ
اس میں جواب ہے اسی برق نگاہ کا

(7)

عشق ہی سعی مری عشق ہی حاصل میرا
یہی منزل ہے یہی جادۂ منزل میرا

یوں اڑائے لئے جاتا ہے دل میرا
ساتھ دیتا نہیں اب جادہ ٔ منزل میرا

یوں اڑائے لئے جاتا ہے مجھے دل میرا
ساتھ دیتا نہیں اب جادۂ منزل میرا

اور آجائے نہ زندانیِ وحشت کوئی
ہے جنوں خیر بہت شور سلاسل میرا

میں سراپا ہوں تمنّا ہمہ تن درد ہوں میں
ہر بُن مو میں تڑپتا ہے مرے دل میرا

داستاں ان کی ادائو ں کی ہے رنگیں لیکن
اس میں کچھ خون تمنا بھی ہے شامل میرا

بے نیازی کو تری کچھ بھی پذیرانہ ہوا
شکر اخلاص مرا شکوہ ٔباطل میرا

(8)

ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی
آئینہ بھی حیران ہے آئینہ نگر بھی

ہو نور پہ کچھ اور ہی نور کا عالم
اس رُخ پہ جو چھا جائے مرا کیف نظر بھی

تھا حاصلِ نظّارہ فقط ایک تحیّر
جلوے کو کہے کون کہ اک اب گم ہے نظر بھی

(9)

مستی میں فروغِ رُخِ جاناں نہیں دیکھا
سنتے ہیں بہار آئی گلستاں نہیں دیکھا

زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

آئے تھے سبھی طرح کے جلوے مرے آگے
میں نے مگر اے دیدۂ حیراں نہیں دیکھا

اس طرح زمانہ کبھی ہوتا نہ پُر آشوب
فتنوں نے ترا گوشۂ داماں نہیں دیکھا

ہر حال میں نہیں پیش نظر وہی صورت
میں نے کبھی روئے شبِ ہجراں نہیں دیکھا

کچھ دعوی تمکیں میں ہے معذور بھی زاہد
ہستی میں تجھے چاک گریباں نہیں دیکھا

روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں
جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا

کیا کیا ہوا ہنگام جنوں یہ نہیں معلوم
کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا

شائستۂ صحبت کوئی ان میں نہیں اصغر ؔ
کافر نہیں دیکھے کہ مسلماں نہیں دیکھا

(10)

رخ رنگین پہ موجیں ہیں تبسم ہائے پنہاں کی
شعائیں کیا پڑیں رنگت نکھر آئی گلستاں کی

نقاب اس نے الٹ کر حقیقت ہم پہ عریاں کی
یہیں ختم ہو جاتی ہیں بحثیں کفر ایماں کی

روانی رنگ لائی دیدۂ خوننا بہ افشاں کی
اتر آئی ہے اک تصویر دامن پر گلستاں کی

حقیقت کھول دیتا میں جنون کے راز پنہا کی
قسم دے دی ہے قیس نے چاک گریباں کی

مری اک بیخود یمیں سینکڑوں ہوش و خرد وگم ہیں
یہاں کے ذرّہ ذرّہ میں ہے وسعت اک بیاباں کی

مجھی سے بگڑے رہتے ہیں مجھی پر ہے عتاب ان کا
ادائیں چھپ نہیں سکتیں نواز شہائے پنہاں کی

اسیرانِ بلا کی حسرتوں کو آہ کیا کہئے
تڑپ کے ساتھ اونچی ہو گئی دیوار زنداں کی

(11)

ادھر وہ خندۂ گلہائے رنگیں صحن گلشن کی
ادھر اک آگ لگ جاناوہ بلبل کے نشیمن میں

بن آئی ہے بادہ نوشو ں کی بہار آئی ہے گلشن میں
لبِ جو ڈھل رہی ہے بھر لیے پھول دامن میں

تپش جو شوق میں تھی وصل میں بھی ہے وہی مجھ کو
چمن میں بھی وہی اک آگ ہے جو تھی نشیمن میں

مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں ناصح!
بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں

الٰہی کون سمجھے میری آشفتہ مزاجی کو
قفص میں چین آتا ہے نہ راحت ہے چمن میں

بہار آتے ہی وہ ایکبارگی میرا تڑپ جانا
وہ جا پڑنا قفس کا آپ سے آپ اُڑکے گلشن میں

ابھی اِک موج مے اٹھی تھی میخانے میں اے واعظ
ابھی اک برق چمکی تھی مرے وادی ایمن میں

 

 

 

 

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!